بنا تیرے نہ اک پل ہو
نہ تیرے بن کبھی کل ہو

ضمیر جاگ ہی جاتا ہے، اگر زندہ ہو
                 اقبال
کبھی گناہ سے پہلے،  تو کبھی گناہ کے بعد

نہ جانے کتنی شکایتیں تھیں
نہ جانے کتنے گلے تھے ان سے
جو ان کو دیکھا تو بھول بیٹھے
سوال سارے جواب سارے

kabi kabi mukamal hony ki howahish main
ham pehlay say ziada adhory ho jaty hain

کبھی کبھی مکمل ہونے کی خواہش میں
 ہم پہلے سے زیادہ ادھورے ہو جاتے ہیں




Muhabat kar k dekhi ha muhabat saf dhoka ha
yeh sb kehny ki batain hain kon kisi ka hota ha

محبت کرکے دیکھی ہے محبت صاف دھوکہ ہے
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں پھر کون کسی کا ہوتا ہے

Faslay Barhty Hain To galt fehmian bhe barh jati hain
phr woh bhe sunai deta ha jo kabi kha na ho

فاصلے بڑھتے ہیں تو غلط فہمیاں بھی بڑھ جاتی ہیں
پھر وہ بھی سنائی دیتا ہے جو کبھی کھا نہ ہو